واقعہ کی تفصیل جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک رات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرمارہے تھے کہ دو فرشتے جبریل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام آئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیدار کیا اور اپنے ساتھ حرم کعبہ میں صفا و مروہ کے درمیان لائے جہاں بُرّاق کھڑا تھا، وہ گدھے سے بڑا لیکن خچر سے کچھ چھوٹا سفید رنگ کا بہشتی جانور تھا، ران پر دو پر تھے اور زین بندھی تھی، اس جنتی بُرّاق کا نام جارود تھا، جبرئیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کروایا اور روانہ ہوئے، دائیں بائیں فرشتوں کی جماعتیں تھیں، راستہ میں کھجور کے درختوں کے جُھنڈ نظر آئے، جبرئیل علیہ السلام نے کہا: "یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دارالہجرت ہے۔" یہاں اتر کر آپ نے دو رکعت نفل نماز پڑھی، پھر جبرئیل علیہ السلام نے طور سینا پر براق کو روکا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، آپ کی تیسری منزل بیت اللحم تھی جس کے بارے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتلایا کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے، وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی، وہاں سے بیت المقدس آئے جہاں مسجد اقصیٰ تھی، وہاں آپ براق سے اترے، استقبال کے لئے فرشتوں کی کثیر تعداد تھی۔
مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء آپ کے منتظر تھے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز میں تمام پیغمبروں کی امامت فرمائی، حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی مقتدیوں میں تھے، یہ سفر کی پہلی منزل تھی اس کو "اسرا ء" بھی کہا جاتا ہے، اس کے بعد سفر کی دوسری منزل شروع ہوئی جو اصل معراج ہے۔
وہاں سے جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صخرہ پر لائے جہاں سے فرشتے آسمانوں کی طرف پرواز کرتے ہیں، وہاں ایک سیڑھی نمودار ہوئی جس کے ذریعے اسی رات آپ کو بیت المقدس سے آسمان دنیا تک لے جایا گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے دروازہ کھولا گیا، آپ نے وہاں ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے آپ کو مرحبا کہا، سلام کا جواب دیا اور آپ کی نبوت کا اقرار کیا، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے دائیں جانب سعادت مندوں کی روحیں اور بائیں جانب بدبختوں کی روحیں دکھلائیں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا اور دروازہ کھلوایا گیا، آپ نے وہاں حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو دیکھا، دونوں سے ملاقات کی اور سلام کیا، دونوں نے سلام کا جواب دیا، مبارک باد دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر تیسرے آسمان پر لے جایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا اور سلام کیا، انہوں نے جواب دیا، مبارک باد دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر چوتھے آسمان پر لے جایا گیا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ادریس علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے جواب دیا، مرحبا کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے جواب دیا مبارک باد دی اور اقرار نبوت کیا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھٹے آسمان پر لے جایا گیا، وہاں آپ کی ملاقات حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام کیا، انہوں نے جواب دیا، مرحبا کہا اور اقرار نبوت کیا، البتہ جب آپ وہاں سے آگے بڑھے تو وہ رونے لگے، ان سے کہا گیا: "آپ کیوں رو رہے ہیں؟" انہوں نے کہا: "میں اس لیے رو رہا ہوں کہ ایک نوجوان جو میرے بعد مبعوث کیا گیا، اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے بہت زیادہ تعداد میں جنت کے اندر داخل ہوں گے۔"
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتویں آسمان پر لے جایا گیا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی، آپ نے انہیں سلام کیا، انہوں نے جواب دیا، مبارک باد دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیت المعمور دکھلایا گیا، جو فرشتوں کا کعبہ ہے اور زمین پر کعبہ کے عین اوپر واقع ہے، وہاں ایک وقت میں ستر ہزار فرشتے طواف کر رہے تھے۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، سدرہ ایک بیری کا درخت ہے، اس کے پتے ہاتھی کے کان کے برابر اور پھل مٹکوں کی طرح تھے، فرشتے جگنوؤں کی طرح ان پتوں پر تھے، اس پر سونے کے پتنگے، روشنی اور مختلف رنگ چھائے ہوئے تھے، سدرۃ المنتہیٰ عالم خلق اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حدِّ فاصل ہے، اس کے آگے عالمِ غیب ہے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، یہیں پر جنت الماویٰ ہے جس کا ذکر سورۂ نجم میں ہے، اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت میں داخل ہوئے، حضرت جبرائیل علیہ السلام سدرہ سے کچھ آگے رُک گئے اور عرض کیا کہ اگر اس مقام سے بال برابر بھی بڑھوں تو جل کر خاک ہو جاؤں، اب آپ کا اور آپ کے رب کا معاملہ ہے۔
اس کے بعد اللہ جبار جل جلالہ کے دربار میں پہنچایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے اتنے قریب ہوئے کہ دو کمان کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا، اس وقت اللہ نے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو کچھ کہ وحی فرمائی اور پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس ہوئے، یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ نے آپ کو کس چیز کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "پچاس نمازوں کا۔"
انہوں نے کہا: "آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی، اپنے پروردگار کے پاس واپس جایئے اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجیے۔"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا، گویا ان سے مشورہ لے رہے ہیں، انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں! اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہیں، اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور لے گئے، اللہ عزوجل نے دس نمازیں کم کردیں اور آپ نیچے لائے گئے، جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا تو انہیں خبر دی، انہوں نے پھر کہا: "آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور تخفیف کا سوال کیجیے۔" اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ عزوجل کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمدو رفت برابر جاری رہی، یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے صرف پانچ نمازیں باقی رکھیں، اس کے بعد بھی موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو واپسی اور طلب تخفیف کا مشورہ دیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اب مجھے اپنے رب سے شرم محسوس ہورہی ہے، میں اسی پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں۔"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ان کی اپنی شکل میں دیکھا، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اپنی شکل میں دو مرتبہ دیکھا تھا، ایک مرتبہ زمین پر اور ایک مرتبہ یہاں سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ واللہ اعلم۔
بعض طرق میں آیا ہے کہ اس دفعہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شق صدر (سینہ چاک کیے جانے) کا واقعہ پیش آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سفر کے دوران کئی چیزیں دکھلائی گئیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دودھ اور شراب پیش کی گئی تو آپ نے دودھ اختیار فرمایا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ کو فطرت کی راہ بتائی گئی یا آپ نے فطرت پالی اور یاد رکھئے کہ اگر آپ نے شراب لی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت گمراہ ہوجاتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت میں چار نہریں دیکھیں، دو ظاہری اور دو باطنی، ظاہری نہریں نیل و فرات تھیں اور باطنی نہریں جنت کی دو نہریں ہیں، (نیل و فرات دیکھنے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت نیل و فرات کی شاداب وادیوں کو اپنا وطن بنائے گی۔ واللہ اعلم)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے "مالک" داروغۂ جہنم کو بھی دیکھا، وہ ہنستا نہ تھا اور نہ اس کے چہرے پر خوشی اور بشاشت تھی، آپ نے جنت وجہنم بھی دیکھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو یتیموں کا مال ظلماً کھا جاتے ہیں، ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگارے ٹھونس رہے تھے، جو دوسری جانب ان کے پاخانے کے راستے نکل رہے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود خوروں کو بھی دیکھا، ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے تھے اور جب آلِ فرعون کو آگ پر پیش کرنے کے لیے لے جایا جاتا تو ان کے پاس سے گزرتے وقت انہیں روندتے ہوئے جاتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زنا کاروں کو بھی دیکھا، ان کے سامنے تازہ اور فربہ گوشت تھا اور اسی کے پہلو بہ پہلو سڑا ہوا چھیچھڑا بھی تھا، یہ لوگ تازہ اور فربہ گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا چھیچھڑا کھا رہے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان عورتوں کو دیکھا جو اپنے شوہروں پر دوسروں کی اولاد داخل کر دیتی ہیں، (یعنی دوسروں سے زنا کے ذریعے حاملہ ہوتی ہیں، لیکن لاعلمی کی وجہ سے بچہ ان کے شوہر کا سمجھا جاتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھا کہ ان کے سینوں میں بڑے بڑے ٹیڑھے کانٹے چبھا کر انہیں آسمان وزمین کے درمیان لٹکا دیا گیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آتے جاتے ہوئے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انہیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا، آپ نے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا، اس وقت قافلہ سورہا تھا، پھر آپ نے اسی طرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعویٰ کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی۔
-------------------------------جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
2 Comments
Jazakillah khaer for such a excellent shaerng
ReplyDeletethanks for appreciate
DeleteThank You, Informative